دعاؤں کا اپنی اثر ہر طرف
منور ہیں شام و سحر ہر طرف
خوشی اس کے ہم راہ رخصت ہوئی
اداسی گری ٹوٹ کر ہر طرف
جدھر جی میں آیا ادھر چل پڑے
مسافر کا ہوتا ہے گھر ہر طرف
یوں ہی اپنی خوشبو اڑا چار سو
ہوا کی طرح تو بکھر ہر طرف
تھکے حوصلے بے صدا راستے
تباہی کا لمبا سفر ہر طرف
اندھیرے سحرؔ تا نشیں ہو گئے
کہ روشن ہے میرا ہنر ہر طرف

غزل
دعاؤں کا اپنی اثر ہر طرف
خورشید سحر