دعا کیجے وہ برگد اور بھی پھولے پھلے برسوں
کہ جس کی چھاؤں میں ہم آپ سے ملتے رہے برسوں
کوئی جگنو بھٹکتا آ گیا تو آ گیا ورنہ
چراغ قبر بن کر ہم اکیلے ہی جلے برسوں
یہ سنگ میل بھی پہلے کوئی بھٹکا مسافر تھا
جسے اپنی ہی منزل ڈھونڈنے میں لگ گئے برسوں
یہ سر جو کاٹ کر ٹانگے گئے ہیں ان فصیلوں پر
اسی آتش بیانی سے رہیں گے بولتے برسوں
عجب سی موسمی فطرت ہے اپنے دیوتاؤں کی
نہیں پہچانتے وہ ہم جنہیں پوجا کیے برسوں
نہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے نہ اپنی محفلیں پنچھیؔ
خلا میں گونجتے رہ جائیں گے یہ قہقہے برسوں
غزل
دعا کیجے وہ برگد اور بھی پھولے پھلے برسوں
سردار پنچھی