دن کا لباس درد تھا وہ تو پہن چکے
رات آئی جانے کون سا غم اوڑھنا پڑے
اب جلد آ ملو کہ درختوں کے ساتھ ساتھ
کتنے جنم گزار چکا ہوں کھڑے کھڑے
اکثر اسی خیال نے مایوس کر دیا
شاید تمام عمر یوں ہی کاٹنی پڑے
پورے ہوئے ہیں پھول سے اک جسم کے حضور
ارماں کچھ ایسے بھی جو لبوں تک نہ آ سکے
لمحوں کے تار کھینچتا رہتا تھا رات دن
اک شخص لے گیا مری صدیاں سمیٹ کے
جینے کا شوق لے اڑے تاروں سے دور دور
مضبوط ہاتھ موت کا دریا میں پھینک دے
ہم کو عذاب دہر سے ملتی نہیں نجات
تم بھی بہشت جسم کو ویرانہ کر چلے
غزل
دن کا لباس درد تھا وہ تو پہن چکے
کامل اختر