دن چھوٹا ہے رات بڑی ہے
مہلت کم اور شرط کڑی ہے
اس کا اشارہ پا کر مر جا
جینے کو اک عمر پڑی ہے
بند نہیں سارے دروازے
خیر سے بستی بہت بڑی ہے
خوش ہیں مکیں اب دونوں طرف کے
بیچ میں اک دیوار کھڑی ہے
جاگ رہی ہے ساری بستی
اور گلی سنسان پڑی ہے
ہر پل چھوٹی ہوتی دنیا
پہلے سے اب بہت بڑی ہے
دل میں چبھن ہے ہاتھ میں لیکن
نازک سی پھولوں کی چھڑی ہے
صحرا کر دیا جس نے دل کو
ساون کی یہ وہی جھڑی ہے
جمع ہوئے سب دکھ کے مارے
جنت کی بنیاد پڑی ہے
ایک دیا ہے طاق میں شاہینؔ
اور سرہانے رات کھڑی ہے
غزل
دن چھوٹا ہے رات بڑی ہے
شاہین غازی پوری