دلوں میں آگ لگاؤ نوا کشی ہی کرو
نہیں ہے شغل جنوں کچھ تو شاعری ہی کرو
یہ کیا کہ بیٹھ رہے جا کے خلوت غم میں
نہیں ہے کچھ تو چلو چل کے مے کشی ہی کرو
یہی ہنر کا صلہ ہے تو ناقدان سخن
کسی اصول کے پردے میں دشمنی ہی کرو
صدائے دل نہ سنو عرض حال تو سن لو
کہاں یہ فرض ہے تم پر کہ منصفی ہی کرو
یہی نعیمؔ بہت ہے جو کاٹ لو یہ رات
یہ کچھ ضرور نہیں ہے کہ روشنی ہی کرو
غزل
دلوں میں آگ لگاؤ نوا کشی ہی کرو
حسن نعیم