EN हिंदी
دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں | شیح شیری
dilbar ko dilbari sun mana yar kar rakhun

غزل

دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں

علیم اللہ

;

دل بر کو دلبری سوں منا یار کر رکھوں
پیتم کو اپنے پیت سوں گلہار کر رکھوں

ایک نوم سوں جگاؤں اگر مردہ دل کے تئیں
تا حشر یاد حق منے بیدار کر رکھوں

رہتا ہے دل ہر ایک کا ہر ایک کام میں ایک
اپنا خیال صورت پرکار کر رکھوں

دستا ہے مجھ کو یار کا رخسار گل عذار
تس کی خوشی سوں طبع کو گل زار کر رکھوں

منکے کو من کے لاؤں پھرانے کا جب خیال
تسبیح بدن کی توڑ کے ایک تار کر رکھوں

پیتم کے باج نہیں ہے مرا اختیار کچھ
مجھ دل کو تس کے امر میں مختار کر رکھوں

بے سر اگر اچھے تو اسے سر کروں عطا
دونوں جہاں میں صاحب اسرار کر رکھوں

اندھے کے تئیں علیمؔ لگا عشق کا انجن
سب واصلاں میں واصل دیدار کر رکھوں