دل تک ہو چاک تیغ جو سر پر لگائیے
عاشق ہوں ہاتھ سوچ سمجھ کر لگائیے
چہرے پہ نازکی سے نہ آئے کہیں گزند
رخسار سے نہ آپ گل تر لگائیے
ساقی کے لطف خاص کی تعظیم ہے ضرور
آنکھوں سے جام بادۂ احمر لگائیے
ہے جی میں بہر نور نگہ اس کی خاک پا
سرمہ کی جا اگر ہو میسر لگائیے
یہ دل میں ہے کہ چھوڑ کے رونقؔ جہان کو
کوچہ میں اس نگار کے بستر لگائیے

غزل
دل تک ہو چاک تیغ جو سر پر لگائیے
رونق ٹونکوی