دل پہ جو گزری کوئی کیا جانے
یہ تو ہم جانیں یا خدا جانے
خاک جھیلے گا وہ مصیبت عشق
جو لگا کر نہ پھر بجھا جانے
تو ہی اپنا مقام جانتا ہے
اک ظلوم و جہول کیا جانے
کیا کرے عرض مدعا وہ بشر
ابتدا کو جو انتہا جانے
بادہ نوشوں کا حشر کیا ہوگا
مجھ بلانوش کی بلا جانے
بات رندی کی مجھ کو آتی ہے
پارسائی کی پارسا جانے
تجھ کو اپنی خبر نہیں اے جوشؔ
تو خدائی کے راز کیا جانے
غزل
دل پہ جو گزری کوئی کیا جانے
جوشؔ ملسیانی