EN हिंदी
دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو | شیح شیری
dil pareshan ho magar aankh mein hairani na ho

غزل

دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو

شہریار

;

دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو
خواب دیکھو کہ حقیقت سے پشیمانی نہ ہو

کیا ہوا اہل جنوں کو کہ دعا مانگتے ہیں
شہر میں شور نہ ہو دشت میں ویرانی نہ ہو

ڈھونڈتے ڈھونڈتے سب تھک گئے لیکن نہ ملا
اک افق ایسا کہ جو دھند کا زندانی نہ ہو

غم کی دولت بڑی مشکل سے ملا کرتی ہے
سونپ دو ہم کو اگر تم سے نگہبانی نہ ہو

نفرتوں کا وہی ملبوس پہن لو پھر سے
عین ممکن ہے یہ دنیا تمہیں پہچانی نہ ہو