EN हिंदी
دل و نگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا | شیح شیری
dil o nigah mein usko agar nahin rahna

غزل

دل و نگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا

فہیم شناس کاظمی

;

دل و نگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا
شناسؔ مجھ کو بھی پھر در بدر نہیں رہنا

اگر میں آؤں گا صدیوں کی عمر لاؤں گا
کہ تیرے پاس مجھے مختصر نہیں رہنا

یہ کائنات مری انگلیوں پہ ناچتی ہے
مجھے ستاروں کے زیر اثر نہیں رہنا

میں جانتا ہوں مگر دل کو کون سمجھائے
شناسؔ اس کو مرا ہم سفر نہیں رہنا