دل و نظر میں نہ پیدا ہوئی شکیبائی
کسی کے غم نے طبیعت ہزار بہلائی
تمام حسن و محبت تمام رعنائی
وہ اک نگاہ جو پیغام زندگی لائی
چھلک پڑیں نہ کہیں اشک میری آنکھوں سے
کسی کے درد محبت کی ہو نہ رسوائی
غم زمانہ کے مارے نہ رہ سکے زندہ
نگاہ دوست نے کیا کیا نہ کی مسیحائی
نہ رک سکیں گے رہ عشق میں جنوں کے قدم
کہ بڑھ رہا ہے ابھی ذوق آبلہ پائی
وہ جہد جامہ دری ہے نہ فکر بخیہ گری
عجیب حال میں ہیں آج تیرے سودائی
نظر پڑا نہ کہیں وہ غزال رم خوردہ
جنون شوق نے کی لاکھ دشت پیمائی
مری طرح تو تماشہ نہ بن سکا کوئی
اگرچہ ایک جہاں تھا ترا تماشائی
قریب آ کے بھی احساس بعد مٹ نہ سکا
کہ تیرے ہو کے بھی ہم ہیں ترے تمنائی
جو حرص و آز کے بندے ہیں ان کو کیا معلوم
وقار بندگی و عظمت جبیں سائی
ہر ایک چیز جہاں سیم و زر میں تلتی ہے
مرے خلوص کی کیا ہو وہاں پذیرائی
یہ لالہ و گل و نسریں یہ انجم و مہتاب
کہاں نہیں ترے جلووں کی عالم آرائی
مجھے وہ عہد وہ دن رات یاد آتے ہیں
کہ جب نہ تھی ترے غم سے کوئی شناسائی
شب فراق کی بے تابیوں کو کیا کہئے
کبھی کبھی تو مرے غم کو بھی ہنسی آئی
نہ رہ سکا کسی عالم میں بھی ترا مضطرؔ
کہ غم ہوا نہ گوارا خوشی نہ راس آئی
غزل
دل و نظر میں نہ پیدا ہوئی شکیبائی
رام کرشن مضطر