دل ملا دل کا مدعا نہ ملا
جی لئے جینے کا مزا نہ ملا
بندۂ زر تو ہر قدم پہ ملے
ایک بھی بندۂ خدا نہ ملا
کوئی شکوہ نہیں مجھے ان سے
دل ہی تو ہے ملا ملا نہ ملا
بے وفا نے بنا دیا یہ حال
وہ تو کہئے کہ با وفا نہ ملا
کچھ ملا ہو تو بیٹھ کر جوڑیں
کیا ملا ہم کو اور کیا نہ ملا
بخدا کچھ بھی لطف جینے میں
لذت درد کے سوا نہ ملا
سعیٔ ناکام کا ستم یہ ہے
نکتہ چینوں کو اک بہانہ ملا
مضمحل ہو گئیں صلاحیتیں
جب زمانے سے حوصلا نہ ملا
اجنبی پوچھتے ہیں جامیؔ کو
ہم صفیروں سے آسرا نہ ملا

غزل
دل ملا دل کا مدعا نہ ملا
جامی ردولوی