دل میں یاد رفتگاں آباد ہے
ورنہ یہ دل بھی کہاں آباد ہے
ایک میں آباد ہوں اس شہر میں
اور اک میرا مکاں آباد ہے
کس کے یہ نقش قدم ہیں خاک پر
کون ایسے میں یہاں آباد ہے
باب عمر رائیگاں کی لوح پر
حرف احساس زیاں آباد ہے
میرے ہونے سے نہ ہونا ہے مرا
آگ جلنے سے دھواں آباد ہے
رونق دل کا ہے عالم دیدنی
خانۂ آوارگاں آباد ہے
اک دریچہ اس گلی میں آج تک
بے چراغ و بے نشاں آباد ہے
غزل
دل میں یاد رفتگاں آباد ہے
جمال احسانی