دل میں طوفان اٹھاتے ہوئے جذبات بھی ہیں
ہم ہیں خاموش کہ کچھ اپنی روایات بھی ہیں
محتسب ہی سے نہیں نالہ بہ لب جام و سبو
سنگ اٹھائے ہوئے خود اہل خرابات بھی ہیں
مستیوں میں کبھی مل جاتے ہیں انساں اب بھی
جیسے صحراؤں میں شاداب مقامات بھی ہیں
دیکھیے مجھ سے وہ کب آ کے گلے ملتا ہے
تھے جو میرے وہی اب غیر کے حالات بھی ہیں
اشک ہی اشک نہیں غور سے دیکھو گے اگر
ان سلگتی ہوئی آنکھوں میں حکایات بھی ہیں
ان کے دامن پہ لہو کس کو یقیں آئے گا
جن کے چہروں پہ تقدس کی علامات بھی ہیں
کیا کہیں کون سی راہوں میں ہیں پامال کرمؔ
ہم کہ زندہ ہیں مگر کشتۂ حالات بھی ہیں

غزل
دل میں طوفان اٹھاتے ہوئے جذبات بھی ہیں
کرم حیدری