دل میں ترے جو کوئی گھر کر گیا
سخت مہم تھی کہ وہ سر کر گیا
وہم غلط کار نے دل خوش کیا
کس پہ نہ جانے وہ نظر کر گیا
جا ہی بھڑا تجھ صف مژگاں سے یار
دل تو مرا زور جگر کر گیا
رات ملا تھا مجھے تنہا رقیب
یار خدا کا ہی میں ڈر کر گیا
فیض ترے وصف بنا گوش کا
اپنے سخن کو تو گہر کر گیا
دیکھ لی ساقی کی بھی دریا دلی
لب نہ ہمارے کبھو تر کر گیا
کیوں کے کراہوں نہ شب و روز میں
درد مرے پہلو میں گھر کر گیا
نفع کو پہنچا یہ تجھے دے کے دل
جان کا اپنی میں ضرر کر گیا
اور غزل اب کوئی سودا تو کہہ
یہ تو یوں ہی تھی میں نظر کر گیا
غزل
دل میں ترے جو کوئی گھر کر گیا
محمد رفیع سودا