دل میں جو تصور ہے تری زلف رسا کا
سمجھا ہوں اسے میں تو عمل رد بلا کا
دنیا میں کوئی مجھ سا گنہ گار نہ ہوگا
میں خاک کا پتلا نہیں پتلا ہوں خطا کا
جنت کی ہے امید تو دوزخ کا ہے کھٹکا
دشوار ہے میدان بہت بیم و رجا کا
حوران جناں نے ہمیں آنکھوں پہ بٹھایا
دیکھے تو کوئی مرتبہ تیرے شہدا کا
ساغر کی تمنا ہے نہ شیشہ کی ضرورت
مستانہ ہوں تیری نگہ ہوشربا کا
انوار محمد کے ہیں انوار الٰہی
دیدار محمد کا ہے دیدار خدا کا
اک راز ہے یہ بھی کہ تری تیغ کا پانی
چشمہ ہے شہیدوں کے لئے آب بقا کا
اللہ کے محبوب کی نظروں میں ہے اعجاز
سینہ میں جو اللہ کا گھر تھا اسے تاکا
بے آئی مروں تم پہ کہ مرنا ہے مقدر
کیوں مفت میں احسان اٹھاؤں میں قضا کا
مرقد میں بھی امت کو نہ بھولے شۂ والا
اللہ غنی دھیان ہے کتنا غربا کا
روضے پہ کیا عرض مرا حال پریشاں
احسان نہ بھولوں گا کبھی باد صبا کا
جس خاک پہ عاشق نے کئے سجدوں پہ سجدے
خاکہ تھا وہاں آپ کے نقش کف پا کا
ارباب کرم پھولتے پھلتے ہیں ہمیشہ
ملتا ہے ثمر ان کو غریبوں کی دعا کا
راسخؔ کی زباں پر ہو دم مرگ یہ مصرعہ
محبوب کی امت میں ہوں بندہ ہوں خدا کا

غزل
دل میں جو تصور ہے تری زلف رسا کا
محمد یوسف راسخ