دل میں اک جذبۂ بیداد و جفا ہی ہوگا
وہ خدا وند بھی ہوگا تو خدا ہی ہوگا
گرد سی اڑتی نظر آتی ہے آندھی ہوگی
دور تک نقش قدم ہیں کوئی راہی ہوگا
ہم سے جو پوچھنا ہے پوچھ لو ورنہ کل تک
کس کو اندازۂ نا کردہ گناہی ہوگا
کہیں گرتی ہوئی دیواریں کہیں جھکتی چھتیں
آپ کہتے ہیں تو یہ قصر وفا ہی ہوگا
پھول سے ترستے ہوئے لوگ خرابوں میں کہاں
دشت وحشت میں کوئی آبلہ پا ہی ہوگا
جاتے جاتے مرے دروازے کے پٹ کھول گئی
یہ بھی اخترؔ کوئی انداز صبا ہی ہوگا
غزل
دل میں اک جذبۂ بیداد و جفا ہی ہوگا
اختر ہوشیارپوری