دل میں ہے اتفاق سے دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ
اس میں قیام بھی کریں آپ سفر کے ساتھ ساتھ
درد کا دل کا شام کا بزم کا مے کا جام کا
رنگ بدل بدل گیا ایک نظر کے ساتھ ساتھ
خواب اڑا دیے گئے پیڑ گرا دیے گئے
دونوں بھلا دیے گئے ایک خبر کے ساتھ ساتھ
شاخ سے اس کتاب تک خاک سے لے کے خواب تک
جائے گا دل کہاں تلک اس گل تر کے ساتھ ساتھ
اس کو غزل سمجھ کے ہی سرسری دیکھیے سہی
یہ مرا حال دل بھی ہے عرض ہنر کے ساتھ ساتھ
غزل
دل میں ہے اتفاق سے دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ
ادریس بابر