دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
لیس فی الدار غیرہ دیار
کفر و دیں سے نہیں کچھ آپ کو بحث
سر تسبیح و گردن زنار
داغ اشک آستیں سے اڑتے ہیں
مفت جاتی ہے ہاتھ سے یہ بہار
ہم وہ آفت طلب ہیں ہے جن کو
زخم شمشیر مرہم زنگار
یاد میں کس کی رات رویا ہوں
غرق خوں ہے ہنوز جیب و کنار
آہ کیا کیجے زلف و رخ اس کا
چت چڑھا ہی رہے ہے لیل و نہار
ناصحا ترک کیجے کس کس کا
جیتے جی کو تو سب کچھ ہے درکار
عشق بازی کو کیا کرے گا تو
گو کہ چھوڑا میں اک شراب و قمار
ہم نے دیکھا ہے داغ دل قائمؔ
وقنا ربنا عذاب النار
غزل
دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
قائم چاندپوری