EN हिंदी
دل میں اب آواز کہاں ہے | شیح شیری
dil mein ab aawaz kahan hai

غزل

دل میں اب آواز کہاں ہے

ماہر القادری

;

دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے

آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے

سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا انداز کہاں ہے

دل خوابیدہ روح فسردہ
وہ جوش آغاز کہاں ہے

پردہ بھی جلوہ بن جاتا
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے

بت خانے کا عزم ہے ماہرؔ
کعبے کا در باز کہاں ہے