دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے
آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے
سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا انداز کہاں ہے
دل خوابیدہ روح فسردہ
وہ جوش آغاز کہاں ہے
پردہ بھی جلوہ بن جاتا
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے
بت خانے کا عزم ہے ماہرؔ
کعبے کا در باز کہاں ہے
غزل
دل میں اب آواز کہاں ہے
ماہر القادری