EN हिंदी
دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ | شیح شیری
dil ko le kar humse ab jaan bhi talab karte hain aap

غزل

دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ

نظیر اکبرآبادی

;

دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ
لیجئے حاضر ہے پر یہ تو غضب کرتے ہیں آپ

مورد تقصیر گر ہوتے تو لازم تھی سزا
یہ جفا پھر کہئے ہم پر کس سبب کرتے ہیں آپ

کرتے ہو ابرو سے کشتہ رخ سے دیتے ہو جلا
حسن میں اعجاز کیا کیا روز و شب کرتے ہیں آپ

قیس سے جو تھا کیا در پردہ لیلیٰ نے سلوک
سو وہی اے مہرباں ہم سے بھی اب کرتے ہیں آپ

بے کلی ہوتی ہے حسرت سے دل صد چاک کو
اپنی زلف عنبریں کو شانہ جب کرتے ہیں آپ

ہم نے پوچھا پھر بھی اس کی جاں پھری سب جسم میں
نزع میں دوری سے جس کو جاں بلب کرتے ہیں آپ

ہنس کے فرمایا نظیرؔ اپنی دعائے لطف سے
یہ بھی ہو سکتا ہے کیا اس کا عجب کرتے ہیں آپ