EN हिंदी
دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں | شیح شیری
dil ki kuduraten agar insan se dur hon

غزل

دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں

حیدر علی آتش

;

دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں
سارے نفاق گبر و مسلماں سے دور ہوں

نزدیک آ چکی ہے سواری بہار کی
برگ خزاں رسیدہ گلستاں سے دور ہوں

دل اس قدر گداز ہے برسوں ہی غم رہے
آنسو جو اپنے دیدۂ گریاں سے دور ہوں

مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح
جوہر کبھی نہ خنجر براں سے دور ہوں

فصل بہار آئی ہے کپڑوں کو پھاڑیے
دل کے بخار دست و گریباں سے دور ہوں

چھڑکاؤ کا ارادہ ہے چشم پر آب کا
گرد و غبار کوچۂ جاناں سے دور ہوں

یہ تنگ کر رہا ہے تو الجھا رہے ہیں وہ
دامن کے پاٹ پہلے گریباں سے دور ہوں

وحش و طیور کو مری آہیں کریں ہلاک
آب و گیاہ کوہ و بیاباں سے دور ہوں

ممکن نہیں نجات اسیران عشق کو
یہ قیدی وہ نہیں کہ جو زنداں سے دور ہوں

مدت کے بعد آئے ہیں صحرا میں اے جنوں
دو آبلے تو خار مغیلاں سے دور ہوں

گردش سے چشم یار کے آتشؔ عجب نہیں
جو جو عمل کہ گردش دوراں سے دور ہوں