دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
کچھ بات کروں ادھر ادھر کی
لو دل کی بجھائیں یا جگر کی
لیں اشک خبر کدھر کدھر کی
اٹھنے نہ دیا ہمیں مرے پر
لی ضعف نے عاقبت پسر کی
گھڑیال نصیب ہوں شب وصل
سر چوٹ ہے ہر گھڑی گجر کی
ڈھلنے کو ہے مہر نوجوانی
چھٹنے پہ ہے توپ دوپہر کی
کیا کم سخنوں کو شمع کہیے
شمعوں کی زباں ہے ہاتھ بھر کی
مرقد میں چلے رہ عدم لی
سوجھی جو مسافرت میں گھر کی
کاکل ہوئی تر عرق سے رخ کے
پی سانپ نے اس پھول پر کی
جی قبر میں خاک بھلے اے شادؔ
بستی ہے اجاڑ اس نگر کی
غزل
دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
شاد لکھنوی