دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا
جل گئی ہستی مری لیکن دھواں بڑھتا گیا
زندگی تو ہی بتا کس جا مجھے لے کر چلی
اجنبی رستوں پہ آخر میں کہاں بڑھتا گیا
دشت وحشت میں جلا کر ظلمتوں کی بستیاں
روشنی کی سمت میرا کارواں بڑھتا گیا
اپنی بربادی کا ذمے دار میں یا کوئی اور
ذہن میں ہر وقت میرے یہ گماں بڑھتا گیا
روح نے چھوڑا جو تنہا جسم کو وقت نزاع
بعد پھر اس کے فراق جسم و جاں بڑھتا گیا
طفل سے لے کر عدم تک زندگی کے ساتھ ساتھ
سر پہ میرے بار امید گراں بڑھتا گیا
زندگی اور موت کا یوں سلسلہ چلتا رہا
تنگ تھا پچھلا جہاں اگلا جہاں بڑھتا گیا
ہر قدم تھا ساتھ عارفؔ میرا نفس دائمی
ابتدا سے انتہا تک میں جہاں بڑھتا گیا

غزل
دل کی دھڑکن تھم گئی درد نہاں بڑھتا گیا
سید محمد عسکری عارف