دل کے زخموں کی چبھن دیدۂ تر سے پوچھو
میرے اشکوں کا ہے کیا مول گہر سے پوچھو
گھر جلا بیٹھے چراغوں کی ہوس میں آخر
گھر کی قیمت تو کسی خاک بسر سے پوچھو
یہ تو معلوم ہے میں سمت سفر کھو بیٹھی
تم اسی بات کو انداز دگر سے پوچھو
ریت اڑتی ہے سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی
کٹ سکے گی کبھی یہ رات سحر سے پوچھو
یوں تو مجنوں بھی ہوا کوہ کن و منصور ہوئے
گھائل اب کون ہوا تیر نظر سے پوچھو
لوگ کہتے ہیں مجھے سنگ سر رہ بشریٰؔ
قدر و قیمت مری کچھ اہل ہنر سے پوچھو
غزل
دل کے زخموں کی چبھن دیدۂ تر سے پوچھو
بشریٰ ہاشمی