دل کے ہر درد نے اشعار میں ڈھلنا چاہا
اپنا پیراہن بے رنگ بدلنا چاہا
کوئی انجانی سی طاقت تھی جو آڑے آئی
ورنہ ہم نے تو بہر گام سنبھلنا چاہا
چاہتے تو کسی پتھر کی طرح جی لیتے
ہم نے خود موم کی مانند پگھلنا چاہا
آنکھیں جلنے لگیں تپتے ہوئے بازاروں میں
دل نے جب بھی کسی منظر پہ مچلنا چاہا
صرف ہم ہی نہیں ہر ایک نے جینے کے لیے
اک نہ اک جھوٹے سہارے سے بہلنا چاہا
کون ہے یہ جو سسکتا ہے مرے سینے میں
کون ہے جس نے مرے خون پہ پلنا چاہا
غزل
دل کے ہر درد نے اشعار میں ڈھلنا چاہا
بشر نواز