دل کا آزار کم نہیں ہوتا
شوق دیدار کم نہیں ہوتا
بڑھ رہی ہے بہت مسیحائی
درد بیمار کم نہیں ہوتا
صلح سازان بزم عالم کا
جوش پیکار کم نہیں ہوتا
دیکھ کر تم کو اور کو دیکھیں
اب تو معیار کم نہیں ہوتا
ان کے انکار روح فرسا سے
ان کا اقرار کم نہیں ہوتا
اے فلک اور کوئی تازہ ستم
کرم یار کم نہیں ہوتا
ظاہری حق پرستیوں سے کبھی
کفر دیں دار کم نہیں ہوتا
دور مے میں کمی تو آتی ہے
شوق میخوار کم نہیں ہوتا
مے سے رغبت ہے شیخ کو ہر چند
مے سے انکار کم نہیں ہوتا
عرشؔ داد سخن نہ ملنے سے
لطف اشعار کم نہیں ہوتا
غزل
دل کا آزار کم نہیں ہوتا
عرش ملسیانی