EN हिंदी
دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے | شیح شیری
dil jins-e-mohabbat ka KHaridar nahin hai

غزل

دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے

باقی صدیقی

;

دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے
پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے

ہر بار وہی سوچ وہی زہر کا ساغر
اس پر یہ ستم جرأت انکار نہیں ہے

کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں
کچھ کہتے رہے راستہ ہموار نہیں ہے

دل ڈوب گیا لذت آغوش سحر میں
بیدار ہے اس طرح کہ بیدار نہیں ہے

ہم اس سے متاع دل و جاں مانگ رہے ہیں
جو ایک تبسم کا روادار نہیں ہے

یہ سر سے نکلتی ہوئی لوگوں کی فصیلیں
دل سے مگر اونچی کوئی دیوار نہیں ہے

دم سادھ کے بیٹھا ہوں اگرچہ مرے سر پر
اک شاخ ثمر دار ہے تلوار نہیں ہے

دم لو نہ کہیں دھوپ میں چلتے رہو باقیؔ
اپنے لیے یہ سایۂ اشجار نہیں ہے