دل جھکا مائل طبیعت ہو گئی
آج بسم اللہ الفت ہو گئی
محو دل سے سب شکایت ہو گئی
سامنے جب ان کی صورت ہو گئی
میرا حال زار تو دیکھا مگر
یہ نہ پوچھا کیوں یہ حالت ہو گئی
وہ فریب ناز دے کر لے گئے
کتنی ارزاں دل کی قیمت ہو گئی
دل میں جب تک آہ تھی اک بات تھی
لب تک آتے ہی حکایت ہو گئی
جب نہ ڈالا اس نے آ کر کوئی پھول
گل ہماری شمع تربت ہو گئی
فتنہ سازی تک جو تھی مشق خرام
رفتہ رفتہ وہ قیامت ہو گئی
کیسی مطلب آشنا تھی چشم شوخ
دل اڑایا اور چمپت ہو گئی
چشم پر نم نے کیا افشا راز
آبروئے ضبط غارت ہو گئی
دل کی چالوں کا نتیجہ یہ ہوا
وقت سے پہلے قیامت ہو گئی
دے دیا دل جس کو ہم نے دے دیا
ہو گئی جس سے محبت ہو گئی
کہہ گئے احسنؔ کے منہ پر آج وہ
تیری صورت سے بھی نفرت ہو گئی
غزل
دل جھکا مائل طبیعت ہو گئی
احسن مارہروی