دل جلانے سے کہاں دور اندھیرا ہوگا
رات یہ وہ ہے کہ مشکل سے سویرا ہوگا
کیوں نہ اب وضع جنوں ترک کریں لوٹ چلیں
اس سے آگے جو ہے جنگل وہ گھنیرا ہوگا
یہ ضروری تو نہیں اتنا بھی خوش فہم نہ بن
وہ زمانہ جو نہ میرا ہے نہ تیرا ہوگا
اتنا بھی سنگ ملامت سے ڈرا مت ناصح
سر سلامت ہے تو اس شہر کا پھیرا ہوگا
خدمت راج محل پر انہیں دیکھا مامور
جو یہ کہتے تھے کہ سردار بسیرا ہوگا
راہ پر پیچ کو سہل اتنا بتانے والا
راہ بر ہو نہیں سکتا ہے لٹیرا ہوگا
وہ بھی انسان ہے اے دل اسے الزام نہ دے
جانے اس کو بھی کن آفات نے گھیرا ہوگا
غزل
دل جلانے سے کہاں دور اندھیرا ہوگا
گوپال متل