دل ہوا ویراں متاع چشم نم جاتی رہی
رفتہ رفتہ شورش طبع الم جاتی رہی
تجھ پہ کیا گزری کہ پاس عاشقاں کرنے لگا
یعنی ہم پر وہ تری مشق ستم جاتی رہی
ہم کو دنیا سے شکایت ہے کچھ اس انداز کی
تھی کبھی دنیا کو جیسے قدر غم جاتی رہی
مے کدہ ہے رند ہیں ساقی ہے دور جام ہے
بزم جم باقی ہے اب تک شان جم جاتی رہی
رہ گیا سینے میں غم آثار غم ظاہر نہیں
غمگساروں سے بھی اب چشم کرم جاتی رہی
جس کو کہتے ہیں محبت ہو گئی اب رسم غیر
جس کو کہتے ہیں مروت بیش و کم جاتی رہی

غزل
دل ہوا ویراں متاع چشم نم جاتی رہی
خورشید الاسلام