دل ہوتا ہے تسکین کے عالم میں حزیں اور
لے چل مجھے اے شوق سبک گام کہیں اور
ہاں اور اٹھا پردے کو اے پردہ نشیں اور
مجھ سا نہیں کوئی ترے جلووں کا امیں اور
جتنی وہ مرے حال پہ کرتے ہیں جفائیں
آتا ہے مجھے ان کی محبت کا یقیں اور
مے خانہ کی ہے شان اسی شور طلب سے
ہاں اور نہیں پر ہے تقاضا کہ نہیں اور
ہے حاصل صد زیست جوانی کا یہ عالم
اے عمر گریزاں مجھے رہنے دے یہیں اور
مجھ سا جو نہیں اور کوئی چاہنے والا
تجھ سا بھی زمانے میں نہیں کوئی حسیں اور
کافی نہیں مجھ کو یہ نگاہ غلط انداز
ہاں اور بڑھا حوصلۂ قلب حزیں اور
تکرار کا اے شیخ یہی تو ہے نتیجہ
تم نے جو کہیں اور تو ہم سے بھی سنیں اور
ہم مرتبۂ عرشؔ کوئی ان میں نہ ہوگا
ہوں گے در جاناں کے بہت خاک نشیں اور
غزل
دل ہوتا ہے تسکین کے عالم میں حزیں اور
عرش ملسیانی