دل ہی دل میں درد کے ایسے اشارے ہو گئے
غم زمانے کے شریک غم ہمارے ہو گئے
جو ابھی محفوظ ہیں تنقید ہے ان کا شعار
حال ان کا پوچھئے جو بے سہارے ہو گئے
بن کھلے مرجھا گئیں کلیاں چمن میں کس قدر
زرد رو کس درجہ ہائے ماہ پارے ہو گئے
امن کی طاقت کو کچلا سچ کو رسوا کر دیا
دشمنوں کے چار دن میں وارے نیارے ہو گئے
یہ زمانہ کس قدر بار گراں ثابت ہوا
اپنے بیگانے ہوئے بیگانے پیارے ہو گئے
دشمن دیں دشمن جاں دشمن امن و سکوں
ایک دو کا ذکر کیا سارے کے سارے ہو گئے
ڈوبنے والوں سے زائد کھا رہا ہے ان کا غم
جن کو ساحل تیغ عریاں کے کنارے ہو گئے
اشک غم میں نور رحمت اس طرح شامل رہا
چاند تاروں سے سوا یہ چاند تارے ہو گئے
حیف گلزار جہاں میں چھا گئی غم کی گھٹا
جو شگوفے تھے چمن میں وہ شرارے ہو گئے
غزل
دل ہی دل میں درد کے ایسے اشارے ہو گئے
گلزار دہلوی