دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
پھر نشہ صہبا سے نہ تریاک سے باندھا
اس زلف سے جب ربط ہوا جی کو تو ہم نے
شانے کا تصور دل صد چاک سے باندھا
دیکھا نہ قد سرو کو پھر ہم نے چمن میں
جس دن سے دل اس قامت چالاک سے باندھا
جو آہوئے دل بھا گیا اس صد فگن کو
جھپ اس نے اسے کاکل پیچاک سے باندھا
اور جو نہ پسند آیا اسے وہ تو نظیرؔ آہ
نے صید کیا اس کو نہ فتراک سے باندھا
غزل
دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
نظیر اکبرآبادی