دل ہے تو مقامات فغاں اور بھی ہوں گے
سر ہے تو ابھی سنگ گراں اور بھی ہوں گے
ہم سے کہ ہے سامان فراغت بھی جنوں بھی
تصویر کے پردے میں نہاں اور بھی ہوں گے
واں سلسلۂ زلف میں خم بڑھتے رہیں گے
یاں مشغلۂ غم میں زیاں اور بھی ہوں گے
واں بوئے وفا وہم کو سہہ چند کرے گی
یاں رنگ تغافل پہ گماں اور بھی ہوں گے
ہاں رسم مدارات جنوں اور بڑھے گی
ہاں دشمن دل آفت جاں اور بھی ہوں گے
ہاں وجہ گرفتارئ دل سب کسے معلوم
ہاں طرز ستم ہائے نہاں اور بھی ہوں گے
ہاں اور بڑھے گی قد و گیسو کی حکایت
ہاں قصۂ کوتاہی جاں اور بھی ہوں گے
بھڑکے گی ابھی آتش شوق اور سر دار
ہاں شعلہ لباں سرو قداں اور بھی ہوں گے
ہاں مرحلۂ شوق کے عنواں ہیں ابھی اور
باقرؔ سے کچھ آشفتہ بیاں اور بھی ہوں گے
غزل
دل ہے تو مقامات فغاں اور بھی ہوں گے
سجاد باقر رضوی