EN हिंदी
دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا | شیح شیری
dil-e-tabah ko ab tak nahin yaqin aaya

غزل

دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا

فہیم شناس کاظمی

;

دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا
کہ شام بیت گئی اور تو نہیں آیا

جہاں سے میں نے کیا تھا کبھی سفر آغاز
میں خاک دھول ہوا لوٹ کر وہیں آیا

وہ جس کے ہاتھ سے تقریب دل نمائی تھی
ابھی وہ لمحۂ موجود میں نہیں آیا

بس ایک بار مری نیند چھو گیا کوئی
پھر اس کے بعد ہر اک خواب دل نشیں آیا

بچھڑ کے تجھ سے تری یاد بھی نہیں آئی
مکاں کی سمت پلٹ کر مکیں نہیں آیا