دل سیماب صفت پھر تجھے زحمت دوں گا
دور افتادہ زمینوں کی مسافت دوں گا
اپنے اطراف نیا شہر بساؤں گا کبھی
اور اک شخص کو پھر اس کی حکومت دوں گا
اک دیا نیند کی آغوش میں جلتا ہے کہیں
سلسلہ خواب کا ٹوٹے تو بشارت دوں گا
قصۂ سود و زیاں وقف مدارات ہوا
پھر کسی روز ملاقات کی زحمت دوں گا
میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی
جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا
ایک صفحہ کہیں تاریخ میں خالی ہے ابھی
آخری جنگ سے پہلے تمہیں مہلت دوں گا
غزل
دل سیماب صفت پھر تجھے زحمت دوں گا
سلیم کوثر