دل درد آشنا کا مدعا کیا
کسی بیداد کی کیجے دوا کیا
ہوا انساں ہی جب انساں کا دشمن
شکایت پھر کسی کی کیا گلہ کیا
بہار تازہ آئی گلستاں میں
کھلائے جانے گل باد صبا کیا
وہ کہتے ہیں نشیمن ترک کیجے
چلی گلشن میں یہ تازہ ہوا کیا
اٹھی انسانیت یکسر یہاں سے
یکایک خوئے انساں کو ہوا کیا
نہیں معلوم مستقبل کسی کو
مراحل پیش آئیں جانے کیا کیا
اجڑ کر رہ گیا دو دن میں ہے ہے
مرے گلزارؔ ہندی کو ہوا کیا
غزل
دل درد آشنا کا مدعا کیا
گلزار دہلوی