دل دھواں دینے لگے آنکھ پگھلنے لگ جائے
تم جسے دیکھ لو اک بار وہ جلنے لگ جائے
رقص کرتی ہیں کئی روشنیاں کمرے میں
اس کا چہرہ نہ کہیں رنگ بدلنے لگ جائے
تیز رفتارئ دنیا نہ بدل دے معیار
شام کے ساتھ کہیں عمر نہ ڈھلنے لگ جائے
روشنی میں تری رفتار سے کرتا ہوں سفر
زندگی مجھ سے کہیں تیز نہ چلنے لگ جائے
رستا پانی بھی غنیمت ہے وہ دن دور نہیں
روزن چشم سے جب ریت نکلنے لگ جائے
ریگ صحرا ہے ترے جسم کے سونے کی مثال
آنکھ پھسلے تو کبھی پاؤں پھسلنے لگ جائے
شاخ دل کاٹ کے مٹی میں دبا دی ہم نے
کاش ایسا ہو کہ یہ پھولنے پھلنے لگ جائے
ہم بھی ہنگامۂ بازار جہاں سے گزرے
جیسے ذیشانؔ کوئی نیند میں چلنے لگ جائے
غزل
دل دھواں دینے لگے آنکھ پگھلنے لگ جائے
ذیشان اطہر