دل دھڑکنوں میں جیسے دھڑکتا اسی کا تھا
جیسے مرے وجود پہ چہرہ اسی کا تھا
رکھا ہوا تھا جس کو زمانے سے دور دور
ہر لب پہ اس کا تذکرہ چرچا اسی کا تھا
آنے دیا نہ چین کبھی ایک پل مجھے
میرے تصورات میں دھڑکا اسی کا تھا
جس نے تمام شہر کھنڈر میں بدل دیا
سکہ تمام شہر میں چلتا اسی کا تھا
یوں تو ہزار زخم مجھے اور بھی لگے
لیکن جو زخم سب سے تھا گہرا اسی کا تھا
شدت کی پیاس نے مجھے گھیرا تو یہ کھلا
صحرا کا جو مکین تھا دریا اسی کا تھا
ہم کو ہے آج تک اسی تعبیر کی طلب
آیا تھا کل نبیلؔ جو سپنا اسی کا تھا
روشن تھا جس چراغ کی لو سے بدن نبیلؔ
مجھ کو تمام عمر ہی دھڑکا اسی کا تھا

غزل
دل دھڑکنوں میں جیسے دھڑکتا اسی کا تھا
نبیل احمد نبیل