دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے
تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے
کیوں بدلے ہوئے ہیں نگۂ ناز کے انداز
اپنوں پہ بھی اٹھ جاتی ہے اغیار کے ہوتے
ویراں ہے نظر میری ترے رخ کے مقابل
آوارہ ہیں غم کوچۂ دل دار کے ہوتے
اک یہ بھی ادائے دل آشفتہ سراں تھی
بیٹھے نہ کہیں سایۂ دیوار کے ہوتے
جینا ہے تو جی لیں گے بہر طور دوانے
کس بات کا غم ہے رسن و دار کے ہوتے
غزل
دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے
زہرا نگاہ