EN हिंदी
دل بدلنے سے نہ افلاک بدل جانے سے | شیح شیری
dil badalne se na aflak badal jaane se

غزل

دل بدلنے سے نہ افلاک بدل جانے سے

عالم خورشید

;

دل بدلنے سے نہ افلاک بدل جانے سے
شہر بدلا مری پوشاک بدل جانے سے

کس قدر ہو گئی آسان ہماری مشکل
ایک پیمانۂ ادراک بدل جانے سے

آج بھی رقص ہی کرنا ہے اشاروں پہ ہمیں
فائدہ کچھ نہ ہوا چاک بدل جانے سے

راستہ اب بھی وہی ہے مری منزل بھی وہی
تیز رو میں ہوا پیچاک بدل جانے سے

بھیڑ بڑھنے لگی ہے میرے بہی خواہوں کی
اک ذرا صورت نمناک بدل جانے سے

نیند آتی تھی بہت فرش زمیں پر مجھ کو
خواب روٹھے مری املاک بدل جانے سے

بے وطن میں ہوں مگر خوش ہیں مرے گھر والے
اتنا حاصل تو ہوا خاک بدل جانے سے

بدلی بدلی سی نظر آتی ہے دنیا عالمؔ
بس مزاج خس و خاشاک بدل جانے سے