دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
استادہ ہیں ہم باغ میں شمشاد کی صورت
یاد آتی ہے بلبل پہ جو بیداد کی صورت
رو دیتا ہوں میں دیکھ کے صیاد کی صورت
آزاد ترے اے گل تر باغ جہاں میں
بے جاہ و حشم شاد ہیں شمشاد کی صورت
جو گیسوئے جاناں میں پھنسا پھر نہ چھٹا وہ
ہیں قید میں پھر خوب ہے میعاد کی صورت
کھینچیں گے مرے آئینہ رخسار کی تصویر
دیکھے تو کوئی مانی و بہزاد کی صورت
گالی کے سوا ہاتھ بھی چلتا ہے اب ان کا
ہر روز نئی ہوتی ہے بیداد کی صورت
کس طرح امانتؔ نہ رہوں غم سے میں دلگیر
آنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
غزل
دکھلائے خدا اس ستم ایجاد کی صورت
امانت لکھنوی