دکھائی دے نہ کبھی یہ تو ممکنات میں ہے
وہ سب وجود میں ہے جو تصورات میں ہے
میں جس ہنر سے ہوں پوشیدہ اپنی غزلوں میں
اسی طرح وہ چھپا ساری کائنات میں ہے
کہ جیسے جسم کی رگ رگ میں دوڑتا ہے لہو
اسی طرح وہ رواں عرصۂ حیات میں ہے
کہ جیسے سنگ کے سینے میں کوئی بت ہے نہاں
اسی طرح کوئی صورت تخیلات میں ہے
کہ جیسے وقت گزرنے کا کچھ نہ ہو احساس
اسی طرح وہ شریک سفر حیات میں ہے
کہ جیسے بوئے وفا خود سپردگی میں ملے
اسی طرح کی مہک اس کی التفات میں ہے
کہ جیسے جھوٹ کئی جھوٹ کے سہارے لے
اسی طرح وہ پریشاں تکلفات میں ہے
گناہ بھی کوئی جیسے کرے ڈرے بھی بہت
اسی طرح کی جھجھک اس کی بات بات میں ہے
بس اب تو عشق ہے ہجر و وصال کچھ بھی نہیں
یہ ٹکڑا زیست کا دن میں ہے اور نہ رات میں ہے
نظر کے زاویہ بدلے ہے اور کچھ بھی نہیں
وہی ہے کعبے میں جو نورؔ سومناتھ میں ہے
غزل
دکھائی دے نہ کبھی یہ تو ممکنات میں ہے
کرشن بہاری نور