دکھائے گرد کے خیمے پہ گھر نہیں لکھا
سفر تو سونپ گیا وہ شجر نہیں لکھا
وہ آشنا مجھے پانی سے کر کے لوٹ گیا
کسی بھی لہر میں جس نے گہر نہیں لکھا
بشارتیں تھیں کہ پوروں کی سمت آتی تھیں
مگر یہ ہاتھ کہ جن میں ہنر نہیں لکھا
عجب گمان تھے قوس نگاہ میں اس کی
کھنڈر سے شہر کو اس نے کھنڈر نہیں لکھا
ہر ایک رت کی دعا بھی ہوا بھی آئی تھی
یہ بانجھ پیڑ کہ ان پر ثمر نہیں لکھا
اس ایک لفظ کی سسکی مجھے رلاتی ہے
وہ ایک لفظ جسے جان کر نہیں لکھا

غزل
دکھائے گرد کے خیمے پہ گھر نہیں لکھا
قیوم طاہر