دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے
ہم غرض کے بندوں سے واسطہ نہیں رکھتے
زعم پارسائی میں کب خیال ہے ان کو
طنز تو وہ کرتے ہیں آئنہ نہیں رکھتے
سازشیں علامت تو پست ہمتی کی ہیں
سازشیں جو کرتے ہیں حوصلہ نہیں رکھتے
وہ غرور تقویٰ میں بس یہی سمجھتے ہیں
جیسے ہے خدا ان کا ہم خدا نہیں رکھتے
تم ہوس پرستوں کے سینکڑوں خدا ٹھہرے
ایک ہے خدا اپنا دوسرا نہیں رکھتے
کس طرح منور ہو خانۂ شعور انجمؔ
ذہن کے دریچوں کو تم کھلا نہیں رکھتے

غزل
دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے
انجم عظیم آبادی