ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا
غم سے تو گہرا کوئی سمندر نہیں ملا
یہ تجربہ ہوا ہے محبت کی راہ میں
کھو کر ملا جو ہم کو وہ پا کر نہیں ملا
دہلیز اپنی چھوڑ دی جس نے بھی ایک بار
دیوار و در ہی اس کو ملے گھر نہیں ملا
ساری چمک ہمارے پسینے کی ہے جناب
ورثے میں ہم کو کوئی بھی زیور نہیں ملا
گھر سے ہماری آنکھ مچولی رہی صدا
آنگن نہیں ملا تو کبھی در نہیں ملا
غزل
ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا
ہستی مل ہستی