EN हिंदी
ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا | شیح شیری
DhunDa hai har jagah pa kahin par nahin mila

غزل

ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا

ہستی مل ہستی

;

ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا
غم سے تو گہرا کوئی سمندر نہیں ملا

یہ تجربہ ہوا ہے محبت کی راہ میں
کھو کر ملا جو ہم کو وہ پا کر نہیں ملا

دہلیز اپنی چھوڑ دی جس نے بھی ایک بار
دیوار و در ہی اس کو ملے گھر نہیں ملا

ساری چمک ہمارے پسینے کی ہے جناب
ورثے میں ہم کو کوئی بھی زیور نہیں ملا

گھر سے ہماری آنکھ مچولی رہی صدا
آنگن نہیں ملا تو کبھی در نہیں ملا