دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے
بستی پیچھے رہ جائے گی آگے آگے صحرا ہے
ایک ذرا سی بات پہ اس نے دل کا رشتہ توڑ دیا
ہم نے جس کا تنہائی میں برسوں رستہ دیکھا ہے
پیار محبت آہ و زاری لفظوں کی تصویریں ہیں
کس کے پیچھے بھاگ رہے ہو دریا بہتا رہتا ہے
پھول پرندے خوشبو بادل سب اس کا سایہ ٹھہرے
اس نے جب سے آئینے میں غور سے خود کو دیکھا ہے
مجھ کو خوشبو ڈھونڈنے آئے مرے پیچھے چاند پھرے
آج ہوا نے مجھ سے پوچھا کیا ایسا بھی ہوتا ہے
کل جو میں نے جھانک کے دیکھا اس کی نیلی آنکھوں میں
اس کے دل کا زخم تو ماجدؔ ساگر سے بھی گہرا ہے
غزل
دھول بھری آندھی میں سب کو چہرہ روشن رکھنا ہے
حسین ماجد