دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم
کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم
ہندوستان ہم سے ہے یہ بھی درست ہے
یہ بھی غلط نہیں کہ ہیں ہندوستاں سے ہم
رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے
وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم
رکھتا نہیں ہے کوئی شہادت کا حوصلہ
اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ہم
محفل میں اس نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا
اٹھنے لگے تھے ایک ذرا درمیاں سے ہم
حد جس جگہ ہو ختم حریفان خیرؔ کی
واللہ شروع ہوتے ہیں اکثر وہاں سے ہم

غزل
دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم
رؤف خیر