EN हिंदी
دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم | شیح شیری
dharti se dur hain na qarib aasman se hum

غزل

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم

رؤف خیر

;

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم
کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم

ہندوستان ہم سے ہے یہ بھی درست ہے
یہ بھی غلط نہیں کہ ہیں ہندوستاں سے ہم

رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے
وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم

رکھتا نہیں ہے کوئی شہادت کا حوصلہ
اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ہم

محفل میں اس نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا
اٹھنے لگے تھے ایک ذرا درمیاں سے ہم

حد جس جگہ ہو ختم حریفان خیرؔ کی
واللہ شروع ہوتے ہیں اکثر وہاں سے ہم