EN हिंदी
دھڑکتے سانس لیتے رکتے چلتے میں نے دیکھا ہے | شیح شیری
dhaDakte sans lete rukte chalte maine dekha hai

غزل

دھڑکتے سانس لیتے رکتے چلتے میں نے دیکھا ہے

آلوک شریواستو

;

دھڑکتے سانس لیتے رکتے چلتے میں نے دیکھا ہے
کوئی تو ہے جسے اپنے میں پلتے میں نے دیکھا ہے

تمہارے خون سے میری رگوں میں خواب روشن ہے
تمہاری عادتوں میں خود کو ڈھلتے میں نے دیکھا ہے

نہ جانے کون ہے جو خواب میں آواز دیتا ہے
خود اپنے آپ کو نیندوں میں چلتے میں نے دیکھا ہے

میری خاموشیوں میں تیرتی ہیں تیری آوازیں
ترے سینے میں اپنا دل مچلتے میں نے دیکھا ہے

بدل جائے گا سب کچھ بادلوں سے دھوپ چٹخے گی
بجھی آنکھوں میں کوئی خواب جلتے میں نے دیکھا ہے

مجھے معلوم ہے ان کی دعائیں ساتھ چلتی ہیں
سفر کی مشکلوں کو ہاتھ ملتے میں نے دیکھا ہے